پیر، 8 اپریل، 2013

حیاتاں میراثن



حیاتاں میراثن اور بڑی ملکانی جی قریب قریب ہم عمر تھیں ۔ فرق صرف مرتبے کا تھا ۔ ملکانی جی اپنے گول مٹول وجود کے ساتھ بڑے ٹھسے سے بیٹھا کرتی۔ کمَی اور مزارعوں کی عورتیں ان کے آگے پیچھے پھرا کرتیں۔ ملکانی جی بڑے دھیرج سے بولا کرتی۔ جب وە اپنی غلافی آنکھوں کو گھما کے کسی ملازمہ کو کہتیں : دفع ہونی !  تو کمال کا رعب ہوتا۔ 

حیاتاں میراثن کا باپ ، ملکانی جی کے باپ کا مزارع تھا ۔ بچپن میں حیاتاں اپنی ماں کے ساتھ ملکانی جی کے گھر میں کام کیا کرتی تھی۔ پھر بڑی ملکانی جی بیاہی گئی۔ حیاتاں کی بھی شادی ہوگئی۔ مگر شومئی قسمت کہ اوپر تلے تین بچوں کے بعد حیاتاں بیوە ہوگئی۔ اور دوبارە ملکانی جی کی خدمت میں آن کھڑی ہوئی۔ 

آج حیاتاں اپنا ایک مسئلہ لئے مغموم بیٹھی تھی۔ ملکانی جی بھی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ حیاتاں کے بیٹے نے اپنی چچازاد سے شادی کرنے کی خواہش کی۔ چھوٹی ذات کے لوگوں کی رِیت کے مطابق وٹے سٹے میں میں رشتہ طے ہوگیا۔ شادی کی پہلی رات حیاتاں کی بہو نے اس کے بیٹے سے صاف کہہ دیا کہ مجھے طلاق دے دو۔ اور مجھے ہاتھ بھی مت لگانا۔ بڑوں کے ہاتھ مجبور ہو کے آتو گئی ہوں مگر تمھارے ساتھ بسنا نہیں چاہتی۔ لڑکے نے اپنی ہتک محسوس کرتے ہوئے اس پہ ہاتھ بھی اٹھایا ۔

اب حیاتاں اِسی صدمے میں ملکانی جی سے دل ہلکا کر رہی تھی کہ ملکانی جی، لڑکیوں کی میرے بیٹے کو کمی نہیں ، طلاق تو دے دے گا ، ہم خرچے کا دعوی بھی کریں گے۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ لڑکی اس کے ساتھ رات گزار کے بھی کنواری چلی گئی۔ بڑی ملکانی جی بھی بہت افسوس کر رہی تھیں ۔ ہاں حیاتاں ، کم از کم اس کمینی کو داغی تو کردیتا۔

1 تبصرہ:

کیا سوچا ؟