بدھ، 17 اپریل، 2013

بھنگی کے بچے



ننھےنے سینڈوچ کھانے کی ضد کی ۔ ماں نے ڈبل روٹی پیکٹ سے نکالی تو وە سوکھ چکی تھی۔ ماں نے ننھے کو کارن فلیکس دے کے بہلایا۔ ننھے نے خوب مزاج دکھایا۔ خفا ہوا۔ صوفے کے کُشن پھینکے۔ اوندھا لیٹ گیا۔ ماں نے بہت سمجھایا کہ :  بیٹا، بریڈ  فریش  نہیں ہے۔ آپ  کے ٹمی  میں  پین  ہوجائے گا۔ آخر ننھا مان گیا۔ 
اور آج ۔ ۔ ۔
کچرے کے ڈھیر پہ کھیلتے، بھنگی کے بچے بہت ہی خوش تھے۔

پیر، 8 اپریل، 2013

حیاتاں میراثن



حیاتاں میراثن اور بڑی ملکانی جی قریب قریب ہم عمر تھیں ۔ فرق صرف مرتبے کا تھا ۔ ملکانی جی اپنے گول مٹول وجود کے ساتھ بڑے ٹھسے سے بیٹھا کرتی۔ کمَی اور مزارعوں کی عورتیں ان کے آگے پیچھے پھرا کرتیں۔ ملکانی جی بڑے دھیرج سے بولا کرتی۔ جب وە اپنی غلافی آنکھوں کو گھما کے کسی ملازمہ کو کہتیں : دفع ہونی !  تو کمال کا رعب ہوتا۔ 

حیاتاں میراثن کا باپ ، ملکانی جی کے باپ کا مزارع تھا ۔ بچپن میں حیاتاں اپنی ماں کے ساتھ ملکانی جی کے گھر میں کام کیا کرتی تھی۔ پھر بڑی ملکانی جی بیاہی گئی۔ حیاتاں کی بھی شادی ہوگئی۔ مگر شومئی قسمت کہ اوپر تلے تین بچوں کے بعد حیاتاں بیوە ہوگئی۔ اور دوبارە ملکانی جی کی خدمت میں آن کھڑی ہوئی۔ 

آج حیاتاں اپنا ایک مسئلہ لئے مغموم بیٹھی تھی۔ ملکانی جی بھی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ حیاتاں کے بیٹے نے اپنی چچازاد سے شادی کرنے کی خواہش کی۔ چھوٹی ذات کے لوگوں کی رِیت کے مطابق وٹے سٹے میں میں رشتہ طے ہوگیا۔ شادی کی پہلی رات حیاتاں کی بہو نے اس کے بیٹے سے صاف کہہ دیا کہ مجھے طلاق دے دو۔ اور مجھے ہاتھ بھی مت لگانا۔ بڑوں کے ہاتھ مجبور ہو کے آتو گئی ہوں مگر تمھارے ساتھ بسنا نہیں چاہتی۔ لڑکے نے اپنی ہتک محسوس کرتے ہوئے اس پہ ہاتھ بھی اٹھایا ۔

اب حیاتاں اِسی صدمے میں ملکانی جی سے دل ہلکا کر رہی تھی کہ ملکانی جی، لڑکیوں کی میرے بیٹے کو کمی نہیں ، طلاق تو دے دے گا ، ہم خرچے کا دعوی بھی کریں گے۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ لڑکی اس کے ساتھ رات گزار کے بھی کنواری چلی گئی۔ بڑی ملکانی جی بھی بہت افسوس کر رہی تھیں ۔ ہاں حیاتاں ، کم از کم اس کمینی کو داغی تو کردیتا۔

جمعرات، 28 مارچ، 2013

بُل فائیٹنگ



ایک وقت تھا ، بچہ جونہی پڑھنا سیکھ جاتا تو نسیم حجازی کے ناولوں کے ذریعے اسے معلوم ہوتا کہ دنیا کے نقشے پہ کبھی ہسپانیہ ہوا کرتا تھا جسے اب سپین کہتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ تاریخ اور تاریخی ہستیاں بھی اس کے مطالعے میں آتیں ۔ 
وقت کی صفت تبدیلی ہے۔ وقت بدلا اور اب بچے سپین کو فٹبال کے حوالے سے جانتے ہیں یا پھر بُل فائیٹنگ 

بُل فائیٹنگ یا لڑاکا بیل ، سپین اور قدیم روم کا خونخوار کھیل ہے۔ اس میں خوب تنو مند بیل کو سرخ کپڑا دکھا کر کہا جاتا ہے " آ بیل مجھے مار" 

ہمارے یہاں ہر شخص ہی اپنے تئیں بل فائٹنگ کا ماہر ہے اور اس کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ 

بُل یا بیل، گائے رانی کے شوہرِ نامدار ہیں، بہرحال بُل فائٹنگ کے لئے بیوی یا شوہر، کوئی بھی بُل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ بیگم صاحبہ کو اچانک اپنے دوستوں کی آمد کا بتائیں اور پھر دیکھیں ۔ 
اسی طرح جب شوہر صاحب کام سے واپسی پہ گھر میں داخل ہورہے ہوں تو ان کے جلال کا عالم ملاحظہ ہو ۔ ۔ ۔بُل بھی سہم جائے۔ ۔ ۔

منگل، 26 مارچ، 2013

سُوودا


بابے مقصود نے لاٹھی پہ گرفت جماتے ہوئے گردن اکڑا کے کہا: میرا پتر سُوودا بڑا تابعدار بچہ ہے۔ ساری عمر مرے اگے چُوں وی نئیں کی۔ میری بھانجی عقل کی ذرا موٹی اور صورت کی بس پُوری سی تھی۔ بہن کا احساس کرکے میں نے سُوودے کے لئے منگ لی۔ سُوودا اُسی کے ساتھ گزارە کر رہا ہے۔ ۔ ۔ 

اب مسعود فرشتہ ہوتا ۔ ۔ ۔ تو شاید چشمِ تصور میں ہر رات من پسند اور دلفریب تصویریں سجانے کا ماہر نہ ہوتا ! 

پیر، 25 مارچ، 2013

ماسی کی خوشی

موسم کے پھل پہلی بار دیکھ کر بڑوں کا دل بھی بچوں کی طرح خوشی سے کِِِِھل اُٹھتا ہے۔ یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جیسے ہی کسی داغی یا ناقص دانے پہ نظر پڑتی ہے، تب ہی کیوں۔ ۔ ۔ ماسی کو اس خوشی میں شریک کرنے کا خیال آتا ہے؟ ۔ ۔ ۔ اور اس خیال میں ندامت کا گراف اوپر جاکر فوراً ہی نیچے آجاتا ہے ۔ ۔ !

جمعرات، 21 مارچ، 2013

روٹی


کونے والی ایک دم بالکونی میں آئی، کچھ نیچے پھینکا اور واپس چلی گئی۔ نیچے ایک بچہ کھڑا تھا۔ مجھ سے فاصلہ اتنا تھا کہ واضح نظر نہیں آیا کیا چیز تھی۔ 
جونہی میں قریب پہنچا، وە بچہ اُسی جگہ بیٹھ کر ایک شاپر سے روٹی نکال کے کھا رہا تھا۔ بچے کے سر پہ ٹوپی تھی۔ وە ضرور کسی مدرسے میں پڑھنے والا بچہ تھا جس کی روٹی اس گھر سے لگی ہوئی تھی۔